کورونا وائرس: کووڈ 19 کو قابو کرنے کے پانچ ثابت شدہ طریقے


(1. ٹیسٹ، ٹیسٹ ا ور پھر دوبارہ ٹیسٹ)                         

عالمی ادارہ صحت سمیت بی بی سی نے جن ماہرین سے بات کی ہے انھوں نے کہا ہے کہ اس وبا پر قابو پانے کے لیے سب سے بنیادی اور اہم چیز اس کی تشخیص ہی ہے۔

پروفسیر نینسوا کے مطابق جب تک اگر آپ کو یہی معلوم نہ ہو کہ اس وبا سے کتنے لوگ متاثرہ ہیں تو پھر ایسے میں آپ اس کے پھیلاؤ سے متلعق صیحح ادراک حاصل نہیں کرسکتے اور اس پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھا سکتے۔
امریکہ کی ٹیمپل یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض کرس جانسن اس بات سے متفق ہیںان کا کہنا ہے کہ یہی وہ اقدام ہے جس سے اس وائرس پر قابو حاصل کیا جا سکتا ہے جن اقوام نے ٹیسٹنگ کو یقینی بنایا وہاں نئے کیسز میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اسی طرح جن ممالک نے ٹیسٹنگ کو یقینی نہیں بنایا تو وہاں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں نمایا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جنوبی کوریا نے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً دس ہزار افراد کے ٹیسٹ کر رہا ہے یعنی انھوں نے دو دن میں جتنے ٹیسٹ کیے وہ تعداد میں امریکہ میں ایک ماہ میں ہونے والے ٹیسٹ سے زیادہ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادھانوم غیبرسز کا کہنا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر اس شخص کا ٹسیٹ اہم ہو جاتا ہے، جس میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوجائیں۔
ایک حالیہ میڈیا کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تمام ممالک کے لیے اہم سادہ سا پیغام ہے۔۔ ٹیسٹ، ٹیسٹ، ٹیسٹ۔
تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ جن میں اس وبا کی علامات شدت اختیار کر جائیں تو وہاں صرف ٹیسٹنگ اہم نہیں ہے اس سے حاصل ہونے والی ڈیٹا غیر مصدقہ ہو گا کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو علیحدہ کرنا اہم ہےکیمروں اور ٹرانسپورٹ ریکارڈ سے بھی اس کا پتا چلایا جاتا تھا۔

اس ماہ یعنی مارچ کی 12 تاریخ تک ہانگ کانگ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 445 تھی لیکن یہ ان سے 14،900 افراد تک منتقل ہوا جو ان سے رابطے میں رہے۔ ان میں سے 19 میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔اور اس عمل سے معمولی علامات ظاہر ہونے والوں کو یہ شہہ مل جاتی ہے کہ وہ اس وائرس کو کورونا وائرس سے متاثراس ماہ یعنی مارچ کی 12 تاریخ تک ہانگ کانگ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 445 تھی لیکن یہ ان سے 14،900 افراد تک منتقل ہوا جو ان سے رابطے میں رہے۔ ان میں سے 19 میں کورونا وائرس کی  تشخیص ہوئی۔پھیلاتے پھریںہ شخص کو 
علیحدہ کرنا اہم ہے

(2کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو علیحدہ کرنا اہم ہے)
   



پروفسیر کرنس جانسن کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اور چین نے اپنے شہریوں میں اس وائرس کی تشخیص، ٹیسٹنگ اور اس پر قابو پانے کے لیے عمدہ کام کیا ہے
وہ کہتی ہیں کہ ٹیسٹ سے نہ صرف مریض کو علیحدہ کرکے وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ نئے مخفی کیسز کا بھی پتا چلاتی ہے جو ابھی اپنے ابتدائی مراحل پر ہوں اور ان میں کوئی علامت ظاہر نہ ہورہی ہو۔
پروفیسر جانسن کے مطابق ایسے ممکنہ نئے کیسز کا پتا چلانے کے لیے چینی حکام حد سے زیادہ متحرک رہے۔ چین کے اس وبا پر قابل زکر کنٹرول حاصل کرنے کے پیچھے شاید یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق جن لوگوں کو شدید بخار تھا انھیں کلینک بھیجا گیا اور وہاں انھیں فلو اور (کووڈ-19 )کے ٹسیٹ لیے گئے۔
اگر ان کے (کووڈ-19 )کے لیے ٹیسٹ مثبت آئے تو انھیں قرنطینہ ہوٹلز میں علیحدہ رکھا گیا، تاکہ ان کے خاندان کے دیگر ارکان اس سے متاثر نہ ہوں۔
تائیوان، سنگاپور اور ہانک کانگ نے مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ کورونا کے مشتبہ افراد کو گھروں تک محدود کر دیا اور اس اصول کی خلاف ورزی کرنے پر 3000 ڈالرز سے زیادہ جرمانہ عائد کیا گیا۔
پروفیسر نینسوا کے مطابق اس حکمت عملی میں اہم بات پکڑ کر اس وائرس سے متاثرہ افراد کا پتا چلانا تھی۔
 ان کا کہنا ہے کہ تائیوان اور سنگاپور نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے رابطے میں تھا اس کا پتا چلانا تھا۔ وہ متاثرہ افراد سے ایسے لوگوں کی تفصیلات معلوم کرتے تھے جو ان سے رابطے میں رہے،  
 سکیورٹی کیمروں اور ٹرانسپورٹ ریکارڈ سے بھی اس کا پتا چلایا جاتا تھا۔

                                 (3. تیاری اور فوری اقدام) 




پروفیسر نینسوا اس سے قبل مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کی روک 
تھام کے لیے کام کر چکے ہیں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے وبا آبادی میں پھیلے ایسی وبا پر قابو پانے کے لیے ایک اہم بنیادی اقدام فوری عمل کا ہوتا ہے۔
تائیوان اور سنگاپور نے ثابت کیا کہ فوری عمل نئے کیسز کا پتا چلانے، ایسی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے اور انھیں علیحدہ کرنے میں اہم ثابت ہوتا ہے۔
امریکہ کی ایک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک جریدے میں حالیہ دنوں میں ایک کالم شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ تائیوان کی کامیابی کی کسی حد تک ایک وجہ اس جزیرے پر واقع ملک کی پہلے سے تیاری تھی۔ اس طرح کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تائیوان نے( 2003) میں ہی کمانڈ سنٹر بنا لیا تھا۔
یہ تنظیم جس کا تحقیقاتی ادارے اور حکومت کی ایجنسیاں بھی حصہ ہیں کو سارس وائرس کے بعد عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس ادارے نے کئی مشقیں اور مطالعے کیے ہوئے تھے۔
پروفیسر نینسوا کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اقدام اٹھانا اور ابتدا سے ہی تیار رہنا ایسی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں ہم نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کہ یہ ممالک تیار نہیں تھے بلکہ انھوں نے اقدام اٹھانے میں بھی سستی برتی۔
ایک فرد سے دوسرے فرد تک وائرس پھیلنے سے پہلے جنوری کے وسط میں ہی تائیوان نے چین کے کورونا وائرس کے متاثرہ شہر ووہان سے آنے والوں کی سکریننگ شروع کر دی تھی۔
ہانگ کانگ نے سیاحوں کے لیے آبی داخلی رستوں پر بخار کا پتا چلانے والی مشینوں کی دستیابی کو یقینی بنایا۔
سیاحوں کے 14 دن تک قرنطینہ میں رہنے کے بعد ڈاکٹرز کو یہ ہدایت تھی کہ بخار یا کورونا کی علامات میں مبتلا شخص کے بارے میں مطلع کریں جس میں ایسے شخص کی ووہان سے ٹریول ہسٹری کا بھی پتا چلانا ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس وبا کی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے وقت ایک اہم عنصر ہے۔

                                     (4. سماجی دوری )

ایسے میں آبادی کو اس وائرس سے بچانے کے لیے سماجی دوری کا اصول اہم
 ہو جاتا ہے جیسا کہ ہانگ کانگ اور تائیوان نے کیا جنوری کے آخر میں ہانگ کانگ نے سکول بند کر دیے سماجی تقریبات منسوخ کردیں اور لوگوں کو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت کی۔
اخبارسٹریٹس ٹائمز کے مطابق سنگاپور نے سکول کھولے رکھنے کا فیصلہ کیا اہم انھوں نے ٹیسٹ کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر طلبا اور عملے کو مانیٹر کر رہے تھے۔

                               ( 5. صفائی کے اقدامات کا فروغ)


عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے ہاتھ دھونا اور صفائی کا خاص خیال رکھ کر اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
پروفیسر نینسوا کے مطابق ان ایشیائی ممالک نے( 2003 )کے سارس وائرس کے بعد سبق سیکھے۔ اور اس کے بعد سے انھوں نے مسلسل مشقیں کیں اور اس کی تیاری کے لیے تحقیقات کیں

Comments